منگل، 26 جولائی، 2016

راستوں کے موڑمنزل پر نکل آنے لگے

راستوں کے موڑ منزل پہ نکل آنے لگے

دوپہر کا وقت تھا مگر تیز رفتار گاڑیوں کی اژدہام  بار بار پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ،تینوں بچوں کے ساتھ بمشکل سڑک پار کی۔ دکان سامنے نظر آتے ہی بچہ ماں سے ہاتھ چھڑا کر اندر داخل ہوا اور تیزی سے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ماں اور بچیوں نے چونک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا ،جگہ بناتے ہوئے اسکی تلاش میں نگاہ دوڑانے لگیں۔"شاید شیلف کے پیچھے گم ہو''،گمان کیا ۔کتابوں کی دکان میں وقت گذارنا توسب کی پسندیدہ سرگرمی تھی۔ آج اس بے چینی سے دوڑنا یقیناََ کوئی تازہ کہانی یا سی ڈی۔۔۔۔
ماں اور بچیاں بھی کتابوں پر نظر دوڑانے لگیں ،کتب کے سرورق اور پیچھے  تعارف اور تفصیلات  میں محو ہو گئیں ۔
"امّاں " آواز گونجی اور تینوں کی محویت کو توڑڈالا۔ بچہ جس تیزی سے غائب ہوا تھا اسی سرعت سے دپے پاؤں نمودار ہوا تھا  ایک ہاتھ کمر کے پیچھے کچھ چھپاتے ہوئے ۔
" ایک سرپرائز ہے میرے پاس "
"کوئی نئی کہانی یا   گیم سی ڈی " ممکنہ فوری رد عمل آیا ۔ " اوں ہوں " بچہ نے انکار میں سر ہلایا اور ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعتماد سے ہاتھ میں موجود سر پرائز آگے کر دیا۔
" یہ کون سی کتاب  ۔۔۔۔۔۔تینوں کے منہ سے ادھورا جملہ نکلا۔
"سود ۔۔۔۔دور جدید کےعظیم چیلنج کا جواب دلیل و برہان کے ساتھ !" وہ ٹائٹل پڑھتا چلا گیا۔ 
سب کے ذہن میں مشترکہ یادیں ایک ساتھ  ابھریں  "اف " ماں اور بچوں کی آنکھیں آپس میں ملیں  شدت جذبات   سے لبریز مگر سب کارنگ جدا جدا ، بچہ کی آنکھیں فخر سے جگمگارہی تھیں اللہ اور رسول سے جنگ سودجیسی نجاست  کا حل  اسکے ہاتھ میں تھا ، ماں کی آنکھوں میں تشکر چھلکتے آنسؤں کی صورت جھلملارہاتھا۔ اس جھلملاہٹ میں  تین ماہ سے جاری کلاس کے مناظر ایک فلم کی صورت نمایاں تھے۔ "قرآن کی کلاس گھر میں " ایک خیال تھا جو روشنی بن کر ارد گرد کو منور کردے گا۔ کئی بار ترجمہ اور تفسیر سے پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا مگر کبھی امتحان کبھی مہمان اور کبھی ہنگامی مصروفیت حالات و واقعات کی ترتیب کے باعث منقطع ہوتی رہی۔
                          مگر اس بار سلسلہ میں سورہ البقرہ اور پھر سورہ آل عمران  میں سود کی حرمت کی کیفیت کچھ اس طرح سے دل پرنقش ہوئی کہ آج کارٹون ،لطیفوں یا  سی ڈی کے بجائے "سود " جیسی کتاب اٹھانے سے ظاہر ہوئی ۔ بظاہر غیر سنجیدگی سے سنتے اور سوال کرتے بچے !کسے معلوم کہ کچی عمر میں ذہن نشین ہونے والی  بات پرکل اس لعنت کو ختم کرنے کی  عملی جدوجہد   کریں ۔
                       ماں اور بچوں کے تعلق کو ناپنے والی مشین ابھی ایجاد نہیں ہوئی ہے اس رشتے کی تمام جہتیں اپنی جگہ اہم ہیں ۔بچے کی جسمانی ،معاشی،معاشرتی کے ساتھ روحانی اورجذباتی  نشو نما کا خیال ماں کی ذمہ داری  ہے۔ اگر ماں اور بچے کے درمیاں رشتہ سطحی اور سرسری ہے پارٹ ٹائم قسم کا تو ارد گرد وہی لا تعلقی ، بے نیازی ،خود سری جنم لیتی ہے جس کا سامنا آج ہمیں گھر اور معاشرےمیں ہے۔
                    اور اگر ماں بچے کا تعلق حقیقی احساسات سے گندھا ہوا ہے تو مستقبل اچھی خبر کی نوید سناتا ہے،ماحول اور معاشر ے کے  حسین دور کا آغاز ……………..
        بہر حال تبدیلی کا اولین بیج ماں اور بچے کے درمیان قرآن کے ساتھ ایک خیال ہے مگر ایک تحریک کا عنواں