پیر، 12 فروری، 2018

لگام

لگام
     

 ایمن تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہو ئی تو لاؤنج میں تخت پر امی کو پا یا۔ اس نے چہرے پر بشا شت لانے کی کو شش کی اور ماں کے  نز دیک بیٹھ گئی۔ انہوں نے چونک کر آ نکھیں کھولیں اور گاؤ تکیہ کے سہارے اٹھ بیٹھیں۔ ”آپ تھک گئیں تھیں تو کمرے میں لیٹ جا تیں۔ آ دھی نیند سے سر میں درد ہو گا“  اس نے جھک کر بے آ واز جوتے اتارے اور تخت کے نیچے کھسکائے۔ 
”تمہارا انتظار کر رہی تھی۔اس لئے  یہاں ٹیک لگا لی۔ کب آ نکھ لگی؟ شاید گھنٹے سے زیادہ ہوا........رات کی نیند بھی پو ری ہو گئی.....“  انہوں نے پا ؤں زمین پر رکھے   ”......
  چلو میں کھا نا گرم کر تی ہوں تم کپڑے بدل آ ؤ...“ ایمن نے گھڑی کی طرف اشارہ کر کے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا ”....امی پانچ بج رہے ہیں۔ اسوقت کھانا نہیں۔ چائے میں بنا تی ہوں۔آپ بیٹھیں......“
     ”....تم پھر ہسپتال گئیں تھیں! میرے سمجھا نے کے با وجود.....“   ان کے لہجے میں خفگی تھی   ” اور کھا نا کیا کھا یا؟ کہا ں کھا یا؟ میں بھی تو سنوں...“ وہ خا موش نظریں جھکائے پاؤں کے انگوٹھے سے فرش کریدتی رہی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اسے جھٹلا نا ایمن کے بس میں کہاں تھاسو  کچھ بھی جوا ب نہ دیا۔ یوں لگتا تھا کہ ان کی آ نکھوں میں خاص قسم کے detector نصب ہیں جو جھوٹ اور سچ کو فورا الگ کر لیتے ہیں یا پھر ایمن کا چہرہ آئینہ کی مانند شفاف تھا سو بجز ہتھیار ڈالنے کو کوئی چا رہ نہ تھا،اس لئے پیچھے ہو کر تخت پر لیٹ گئی اور لینن کا دوپٹہ نما چادر اپنے اوپر  ڈال لیا۔ امی کا غصہ فو را کا فور ہو گیا۔ دھیرے دھیرے اس کے با لوں میں ہا تھ پھیر نےلگیں۔   ا یمن کی آ نکھیں خود بخود بند ہو تی گئیں۔
  
انہوں نے اس کا بیگ اور فا ئل اٹھائے تو اس میں سے کاغذات اور اخباری تراشے زمین پر آ رہے۔ جھک کر سمیٹے اور کمرے میں رکھے     محلے کی مسجد سے بلند ہو نے والی عصر کی اذان سن کر وضو کر کے جاء نماز بچھا لی۔” یا الٰہی! سب کی خیر ہو.....“  دعا کے لیے اٹھے ہا تھ چہرے پرپھیرے۔ چائے بنا کر دم پر رکھی اور دروازہ کھول دیا کہ ٹیو شن  کے بچوں کی دستک سے ایمن کی آ نکھ نہ کھل جا ئے! مگر ننھی بچیوں کی آ مد دبی دبی آ وا زیں سن کر اس نے کر وٹ بدل لی۔ امی نے ہاتھ سے اندر جا کر لیٹنے کا اشا رہ کیا ”...نہیں پہلے چائے  بسکٹ!...“ وہ لاڈ اٹھوا نے کے انداز میں بو لی۔ بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ 
    زینب، فا طمہ، عائشہ فورتھ میں، ثناء، زہرہ آمنہ تھری میں تھیں اور اسماء، مریم،نمرہ ٹو میں! ایمن بچوں سے ہاتھ ملا کر قالین پر بیٹھ گئی۔نمرہ  اور زہرہ دونوں بہنیں شروع ہو گئیں۔ گھر کی با تیں، اسکول کے قصے،! آ گے سے ٹو ٹے ہو ئے دانتوں کے با وجود خوب بو لتی تھیں اور کسی کو بولنے کا موقع ہی نہ دیتی تھیں لیکن فاطمہ نے دونوں کو آ نکھیں دکھا کر          پو چھا  
”ایمن با جی آپ یو نیورسٹی میں پڑ ھتی ہیں نا!“ ایمن کا منہ کھلا مگر  زینب جو حسب معمول بغیر با زوؤں کے مختصر سے جھبلے اور اور گھسی ہو ئی اونچی جینز میں تھی، نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ لقمہ دیا تو سب کی نگا ہیں  اس کی ناف اور بغلوں میں الجھ کر رہ گئیں  ”اف“  ایمن نے جھر جھری لی اور آ نکھیں جھکا لیں۔ بچے کچھ نہ سمجھے مگر خاموش ہو گئے۔ امی نے  بسکٹ کی پلیٹ درمیان میں رکھی اور چائے کا کپ اس کے آ گے رکھا۔۔ چند لمحے ہنستے بولتے ما حول کی خا مو شی کو نوٹ کیا۔ سب کو  بغور دیکھا۔ ایمن نے بسکٹ اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔ 
”ہوں کو کو نٹ“  اور چائے کا گرم کپ لبوں سے لگا لیا ”آ ہ گرم!!“   زبان کی نوک بری طرح سرخ ہو چکی تھی  
”سی سی“   بچے پھر کھلکھلائے  
”یہ جو ایمن باجی ہیں انہیں تمہارے اسکول میں دا خلہ مل جا ئے گا؟“ امی نے بچوں کے آ گے ملا مت کی۔ 
سب کی آ نکھیں چمکنے لگیں۔ امی نے ڈا ئری، ہوم ورک کا پیاں کھلوا دیں۔ وہ خا موشی سے بچوں کو کام کر تا  دیکھتی رہی۔ سب  ہی نے ٹاپ اور جینز پہنے                                                          ہو ئے تھے اورکسی پر ھنا مونٹا نا، کسی پر پاور پف گرلز، تو کسی پر باربی ڈول    ! فون کی گھنٹی بجنے پر اس کا انہماک ختم ہوا اور سہیل کی                               آ واز سن کر جیسے ذہن جا گا
”’اچھا تو آ پ نے شکا یتیں لگا ئیں؟؟“   با لکل غلط!! تمہاری سر گر میوں کی رپور ٹ دی تھی۔“ بر جستگی سے جوا ب آ یا۔ بحث کوطول دینے کا کوئی فائدہ تھا نہ ایمن کا موڈ!! بر سر روز گار سہیل کے ساتھ اس کانام بی اے کے بعد ہی جڑ چکا تھا مگر میل جول نفیسہ بیگم نے محدود کر رکھا تھا۔ تعلیم کے با وجود وضع داری ان کے مد نظر تھی۔ اور دور کی سسرالی رشتہ داری  قربت میں بدل ڈا لی تھی۔ ایمن نے فون ماں کی طرف  بڑ ھا دیا۔ مختصر سی بات ہو ئی۔
   مغرب کی اذان بلند ہو نے پر امی نے کا پیاں بند کروا دیں۔ کام بھی ختم تھاکہ زینب کی مما صبا لینے آ گئیں۔ ٹسٹ کے نمبر پر بات                                           ہو نے لگی۔ ایمن نے سر تا پا ڈھکی چھپی عبا یا میں ماں اور ادھورے لباس میں دس سالہ بیٹی کو غور سے دیکھا۔ کیا درمیان میں کوئی کڑی ٹوٹ گئی ہے؟؟ مگر بظا ہر تو ایسا نہیں لگتا!! اگر وہ نقاب پوش دادی یا پھوپھی کے ساتھ ہو تی تو انحراف کا مارجن تھا.......  ...ایمن کا ذہن مسلسل تجزیہ کر رہا تھا۔ دونوں کے مطمئن چہرے الجھن میں ڈال رہے تھے۔ اسے وہ دو مختلف دائروں میں سفر کر تے مسافروں کی مانند لگیں جو کسی نقطے پر ایک دوسرے کو قطع کر تے ہیں۔ فاطمہ، ثنا ء اور عزہ کی امی بھی آ ہی گئیں۔
   ”ڈا ئری دیکھی؟؟ دو دن بعد سیرت النبیﷺ ہے۔ بچوں کو سفید دو پٹے، شلواریں اور رنگین قمیضیں پہننی ہیں“  نفیسہ بیگم نے ماؤں کو جتا یا۔
"اف!! اب یہ نمونے کہاں سے لائیں؟؟ زینب کی مما نا گواری سے بو لیں۔


”جہاں سے یہ دھجیاں آ ئی ہیں اور کہاں سے؟؟ انہوں نے
سرد لہجے میں با ت کا ٹی۔ گفتگو میں ڈیڈ لاک آ گیا تھا۔ فاطمہ کی ماما نے گلا
صا ف کیا
    ”اصل میں بازار میں یہ ہی کپڑے ملتے ہیں....“ تو  ثنا کی امی نے مصا لحتی بیان دا غا ”...بچے ان کپڑو ں کو پہننا پسند کر تے ہیں بلکہ ان کے علاوہ کچھ پہننا نہیں چاہتے....“  نفیسہ بیگم نے ماؤں کو غور سے دیکھا۔”بازار میں تو نہ جا نے کیا کچھ ملتا ہے اوران معصوم بچوں کوبے لبا سی کی عادت ہم ڈا ل رہے ہیں سو پسند بن ہی جا ئے گی.........کتنی ہی با ر بچوں نے میرے ساتھ نماز پڑ ھنے کا سو چا مگر اپنے کپڑو ں پر نظر پڑ تی ہے توشر مندہ ہو جا تے ہیں۔ یہاں بیٹھے سارا وقت جمپر کو نیچے اور جینز کو اوپر کھینچتے رہتے ہیں......“ ان کی آ واز بتدریج مدھم ہو تی چلی گئی۔ ارد گرد   سنا ٹا دبیز ہو گیا۔ وہ نماز کا وقت تنگ ہو نے پر معذرت کر کے اندر چلی گئیں۔ 
ماؤں نے اس تلخ سچ کو یوں بر داشت کیا تو اس کا سبب نفیسہ بیگم کا ماڈل اسکول میں بطور پرا ئمری سیکشن کی انچارج اور اتھارٹی تھی۔ ایمن نے  بمشکل ضبط کیا۔ بچےاپنی ماؤں کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں اتر نے لگے۔ دروازہ بند کر کے اس نے گہرے گہرے سانس لیے۔ چائے کے بر تن کچن میں رکھے،ماں کے پاس جائے نماز پر بیٹھ گئی۔ امی نے طویل دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرے تو ایمن نے اپنا گریبان  آ گے کر دیا۔شفقت بھری نگا ہوں نے اس کے سارے وجود کا احا طہ کر لیا۔  ”...تم بھی پڑھ لو.....“  ”ابھی وقت ہے؟قضا تو نہیں ہو ئی؟“ ایمن نے گلےمیں با نہیں ڈا لیں۔
  ”...ارے وہ کو ئی انسان تھوڑی ہے جو ایک بار روٹھ جا ئے، وہ تو مہلت دیتا ہے۔ ہر وقت منتظر رہتا ہے....“
  ”..مگر امی! رضیہ کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے۔اس پر مجرموں کو ہر گز مہلت نہیں ملنی چا ہئے۔“ ایمن زلزلے کے آ ثار چہرے پر لیے جاء نماز پر کھڑی تھی 
        ”بد کر دار اتنے طا قت ور کیو ں ہیں.....؟؟
    ”کھانے کے بعد اس مو ضوع پر بات کر نا۔ خالی پیٹ ہو تو دماغ سائیں سائیں کر تا ہے“                کچن کی طرف وہ چل دیں۔ کھا نا کھا کر دونوں لاؤنج کے تخت پر آ ٹکیں
   ”یو نیورسٹی سے سیدھے گھر آ نا!میں نے صاف الفاظ میں کہا تھا“ ان کی نارا ضگی بر قرا رتھی۔ ایمن نے ٹھنڈی سانس بھری ۔                                                                                           "پورا سو شیا لو جی ڈیپارٹمنٹ، ویمن اسٹڈیز سنٹر،میڈم عقیلہ، میڈم صبیحہ، سر کا شان،سر زبیری سب گئے تھے۔ میں اکیلی تھوڑی تھی؟ اب    فائنل ا یئر میں اسا ئنٹمنٹ ہے۔”معاشرے میں تبدیلی۔ اسباب و اثرات“! کیا گھر بیٹھے کر لوں؟؟“  وہ ماں کی حکم عدولی کا جواز دے رہی تھی۔ پانچ سال قبل انصار صاحب کی اچانک موت کے بعد ماں بیٹی ایک دوسرے کے مزید قریب آگئیں۔گوئیاں تو وہ پہلے ہی تھیں۔ آہستہ سے ہنسیں 
”ہاں، تمہیں زینب بمقابلہ صباموادمل تو گیا۔“ا                  س کی معذرت گویا قبول ہوگئی۔
    ”آپ تو اندر آگئیں اور میری جان پر بنی “ماں کے ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیے
     ”تم نے غور نہیں کیا بچو ں پر مسلط کر دہ غیر معیا ری لبا س کس کا ایجنڈا ہے؟؟  ا آنکھوں میں الجھن لیے وہ کمرے سے فائل لے کر پلٹی انہوں نے ہا تھ میں لے کر بند کر دی                       ۔                                                                            ”میں شام میں دیکھ چکی ہو ں.....بیٹا معاشرے تو صرف انصاف کی حکمرانی سے پنپتے ہیں“ انہوں نے بات آ گے بڑ ھا ئی اور ریمورٹ سے ٹی وی  چلا دیا۔




اسکرین کا منظر پا رلر سے براہ راستrepeat  telecast  پروگرام! ایمن کے  ما تھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ ایک نیم دراز        خا تو ن کے پپوٹو ں پر شیر کی شبیہہ ابھر رہی تھی۔ اس نے کئی پہلو بد لے مگر ماں نے اشارے سے خا موش کرا یا۔ کوئی    آ دھے گھنٹے بعد یہ فضول کام مکمل ہوا۔ اس دوران کیمرہ مین دونوں خوا تین کے بیچ میں گھسا انہیں جن زاویوں سے فلمبند کر تا رہا اس کا تصور بھی انہوں نے نہ کیا ہو گا۔ شیر کی تصویر سجا ئے خا توں آ نکھیں موندے رہیں شاید جنگل میں شیر کی کچھار کی تلاش میں۔ ٹٹولتے ہاتھوںسے کر سی پر بیٹھیں۔ کروڑ وں نا ظرین ان کی درگت بنتے دیکھ کر محظوظ ہوئے ہوں گے؟   

”شاید گھر بیٹھی خواتین کو آ رائش و زیبا ئش سکھا نا پرو گرام کا مقصد تھا۔ امی نے لقمہ دیا۔ تو ایمن کچکچا کر رہ گئی۔ چینل بدلنے پر بوس و کنا ر کے منا ظر سے لے کر دھمکیاں دیتے مبا حثو ں تک نگاہو ں نے پلک جھپکتے جذب کر لیے۔ ایمن کو ابکائی آ گئی۔ آ خ تھو!! ریمورٹ پر ان کا ہا تھ رکا تو علا قائی تنظیم یعنی سارک                                          سیمینا ر کی عکس بندی  مشترک تہذیب کے علم بردار چمک چمک کر فر ما رہے تھے  ”اجنتا اور ایلورا کے غا روں میں مد فن انسانی تہذیب و تمدن نہ صرف قابل فخر ما ضی  اور سر ما یہ ہے بلکہ آ ج بھی..............“ انہوں  نے mute   کر دیا۔ 
”وقت تو ہمیشہ آ گے کا سفر کر تا ہے مگر یہ دانشور عوام کو لچھے دار باتوں سے فریب دیتے ہیں۔ اگر تو وہ صحیح ہے جو یہ حضرت کہہ رہے ہیں تو ان پر مو با ئیل اور ہا ئی ٹیک انٹر نیٹ جہاز کا سفر اور آ سمان کی بلندیوں تک چھو تی عما رتیں سمیت دنیا کی لا کھو ں چیزوں کی ایجا د اور استعمال از خود غلط ثا بت ہو تا ہے کیا یہ اس کا تصور کر سکتے ہیں؟ بے لبا سی کے علاوہ  کوئی اور فکر قابل پیروی نہیں ان کے لیے!....“  امی نے تبصرہ کیا۔ ایمن سو چوں میں ڈوب گئی مگر اگلے منظر نے دو نوں کو الر ٹ کر دیا۔
 مشہور میز با ن سا یہ خا ن حسب معمول تین حضرات کو دا ئیں اور تین خوا تین کو با ئیں جانب لے کر بیٹھی تھیں۔ درندہ صفت انسا نو ں کی سفلی خوا ہشات کی بھینٹ چڑھنے والی دس سا لہ رضیہ زیر بحث تھی۔ کیمرہ کبھی اسپتال میں موجود لوا حقین پر جا تا او ر کبھی طبی ماہرین کی رائے کے لیے اسٹو ڈیوکا رخ کر تا۔ ’... اف! اس نے جھنجھلا کر ریمورٹ اپٹخ دیا۔ بو جھل سر دونوں ہا تھوں سے تھا م لیا  ”.....بنت حوا کی عزت تار تار کر نے پر خبر نہیں المیہ جنم لیتا ہے۔اور اس غیر انسا نی عمل کی تشہیر اذیت ناک تجر بے کو بار بار دہرا نا ہے۔“   نفیسہ بیگم کی آواز میں بھنور پڑ رہے تھے۔
 ”کبھی ایسا نہیں ہو تا کہ ایک شخص سو کر مطمئن اٹھے اور جرم کا ار تکاب کر ڈا لے! بر سوں کی تر غیب اور غصہ انسا ن کو مجرم بنا دیتا ہے“  انہوں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔





    ”تشنہ آ ر زوؤں، نا آ سودگیوں، اور محرو میوں کو جرم میں بدلنے والے عوا مل کچھ اور بھی ہیں۔ بلا شبہ ان شیا طین کو سخت ترین سزا ملنی چا ہئے جو معصوم بچوں کو اپنا نشا نہ بنا تے ہیٰ! تم کیسی سو شیا لو جسٹ ہو؟ ہمت ہا رنے کے بجا ئے کو ئی حل سوچو! کیا ہم رضیہ کے لیے کچھ کر سکتے ہیں؟؟ایمن بڑ بڑا ئی۔ انہوں نے نفی میں سر ہلا یا۔ ہم معاشرے کی رضیاؤں کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔۔مگر کیسے؟؟ وہ گہری سو چوں میں ڈوب گئی۔ نفیسہ بیگم نے پاس ہی رکھا لیپ ٹا پ اس کے آ گے کر دیا تو کسی خیال سے اس کی آ نکھیں چمکیں۔ کی بورڈ پر اس کے ہا تھ تیزی سے چل پڑے۔ اپنی تمام دوستوں،جاننے والوں کے نام پیغام تیار کیا۔
  ادھر ملک بھر کے نیٹ استعمال کر نے والے حیران تھے کہ آ خر کون ہے جو ہر خبر کا بخیہ ادھیڑ رہا ہے۔ بالآخر پندرہ دن بعد یو نیورسٹی کے سبزہ زار  پر ہو نے والے پرو گرام کی اطلاع اور دعوت معاشرے کے ہر ذمہ دار فرد کو دی گئی۔ بریکنگ نیوز کی طلب میں پہنچنے پر حیرت کے نئے در وا ہو ئے۔ پس پر دہ سماج دشمن طا لبا ن کے بجا ئے با شعور طلبہ و طا لبات کو دیکھ کر ار ما نوں پر اوس پڑ گئی۔ جا بجا لگے پو سٹر پر چیدہ چیدہ حقائق، خبریں  اور پا لیسی کا پو سٹ مارٹم تجزیہ نمایا ں درج تھا۔ با قاعدہ تقریب میں تا خیر پر سوا لیہ نظریں منتظمین کی تلا ش میں اٹھنے لگیں کہ شریر لڑ کوں کاایک گروپ سٹیج پرچڑ ھ گیا۔ نعرے بلند ہو نے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
         ٭نگہت یاسمین ٭