فرد جرم
سلمی نے سر اٹھا کرایک نظر بوسیدہ چھت
کی طرف دیکھا جہاں ننھے ننھے سوراخوں سے دھوپ خیمہ میں چاروں جانب پھیل چکی تھی۔پھر
آھستہ سے ٹاٹ کا پردہ ھٹا کرباہر جھانکا تاحدنگاہ ریت ہی ریت چمک رہی تھی۔ کہیں کہیں
زیتون کی جھا ڑیاں برگ وبار کے بغیر مرجھائی کھڑی تھیں۔صحرا میں دور تک ا پنی ہی زمین پر
پناہ گزینوں کے بد رنگ خیموں کی قطاریں غیر انسانی ماحول میں کیکٹس کی مانند سر اٹھا
ئے ہوئے آسمان سے آگ برساتے سورج کو رحم طلب نظروں سے تک رہی تھیں۔ کچھ فرلانگ کے فاصلے
پر خاردار تاروں کے پیچھے اسرائیلی سپاہی
چوکی میں بیٹھا دور بین لگائے نگرانی پر،مامور بیزاری سے
ریت کے ذروں کو گھور رہاتھا کہ اقوام متحدہ کے ھیومن ریسورس شعبہ کا جنرل ہیرس چوکی میں داخل ہوا۔درشت اسرائیلی فوجی افسران
کی مقابلے میں یہ کرنل سنتری کو خاصا ڈھیلا محسوس ہو تھا اس نے ھلکا سا سیلوٹ مار کر
بے دلی سے دور بین ھیرس کی جانب بڑ ھاد ی۔
گرم ہوا میں
بچوں کی آوازیں گونج رھی تھی۔سلمی نے آنکھوں کے آگے ہاتھوں کا چھجا بنا کر ٹیلے کے اطراف کھیلتے بچوں میں سالم کو تلاش میں نظریں دو ڑا ئیں کہ اچا نک ایک سیٹی کی آ وا
ز پر نشا نہ بازی کے کھیل میں مشغول بچے منتشر ہو نے لگے۔ٹیلے کے پیچھے سے نمو دار
ہو نے وا لے لڑ کوں میں سا لم نما یا ں تھا۔ قریب آ کر ساتھیو ں کو الودا عی سلام کیا
اور ما ں سے لپٹ کر خیمے میں دا خل ہو گیا۔نو عمر لڑ کے کا پر دہ ھٹا کر خیمو ں کو
لو ٹتے ہو ئے سا تھیو ں سے بات کر نے کا منظر اور پس منظر میں کھڑی ماں نے ہیرس کی
تو جہ کھینچ لی۔ صحرا کی دھو پ ریت کے ذرو ں کو سو نا بنارہی تھی۔ انتہا ئی طا قتور
دور بین سے ان بے خا نما ں انسا نو ں کے چہرے ہا تھ برا بر فا صلے پر محسوس ہو ئے۔
ماں کا چہرہ، چہرے کے نقوش جنرل کی یا د داشت پر دستک دینے لگے۔
” ان پنا ہ گزینو ں سے ملا قات کر نی ہے!....“
اس کی حسیا ت بیدا ر ہو چکی تھی
تھو ڑی دیر بعد چوکی پر سالم اور سلمٰی مو جود تھے۔ سالم
لا پر وا ہی سے اپنے ہا تھ میں پتھر کی گیند گھما رہا تھا۔ کبھی ایک ہا تھ سے اچھا
لتا اور دوسرے میں منتقل کر تا۔ مگر سلمٰی دروا زے کے نز دیک نگا ہیں جھکا ئے بالکل
ساکت دیر تک اپنے قد مو ں کو دیکھتی رہی۔ آ نکھو ں کی پتلیا ں بھی ٹھہری ہوئی، لب ایک دوسرے پرسختی
سے جمے ہوئے! بے حد معمولی، خستہ لباس پہنے مگر پورے وقار کے ساتھ ایستادہ تھی
.
”کس قدر بے نیا زی ہے؟ زندگی کی تمام بنیادی ضرو ریات سے
محرومی کے با وجود کو ئی صدائے احتجاج نہیں! اس در جہ خا موشی؟؟“
”.......خوف اور اندیشو ں سے کو سو ں دور۔۔ان
کے پا س ہے ہی کیا جسے کھو نے کا وہم ہو! شا ید ایسی ہی کسی عورت نے شیخ یا سین کو
جنم دیا ہو گا .........“ جنرل سو چتا چلا گیا۔
با
لآ خر کئی با ر پلکیں جھپکا نے کے بعد وہ گویا ہو ئی ”.....یہا ں کیو ں بلا یا ہے؟“
”.
....تم دور سے گلاب لگ رہی تھیں ......سونگھنے کے لئے..“ سنتری نے استہزائی لقمہ دیا
مگر جنرل کے مڑنے اور غضبنا ک نگا ہوں کے سبب پورا نہ ہو سکا۔ جنرل نے اسے ہا تھ سے
باہر جا نے کا اشا رہ کیا تو وہ بڑ بڑاتا ہوا نکل گیا اور جنرل نے جھنجھلا کر عرق شدہ
پیشا نی پونچھی۔
ایک طرف سلمٰی کی لا تعلقی، خا موشی اور دوسری طرف سنتری
کا گندہ مذاق!
”....میں نے نا حق بلوا یا! ..........مگر یہ عورتیں اتنی مختلف کیو ں ہیں؟...“
اسے
ان گنت عورتیں یا د آ ئیں لیلٰی،
الزبتھ،اینا، شیری،جو لی،جینا، میری، ماریہ، ڈیا نا، ویرا، بار برا، ایمی، سو ہا، ڈیمی............
بیروت کے کلبو ں میں نا چتی تھرکتی، پیرس کی سڑ کو ں پر،
با زا رو ں میں دل بہلا تی، گناہ پر آ ما دہ کر تی، کھلونا بنی، سجی سجائی،تر غیب دیتی،
جنس ارزاں کے طور پر ہر جگہ عزت لٹا تی، نیو یا رک، کیلیفورنیا، ہا لی وڈ! سکون کی
تلاش میں زندگی کے مزے لو ٹتی، جوا نی کا لطف انگیز کر تی، جبلتوں کو عریا ں کر تی ،۔۔۔ان دو قسم کی عورتو ں کے درمیان قطبین
جتنا بعد کیو ں؟؟
اچانک
اسے اپنی ما ں یا د آ ئی جو اسے پیدا ئش پر بیروت کے ہسپتال میں امریکی فوجیو ں کے
قیا م کی یا د گا ر کے طور پر چھو ڑ گئی تھی۔ کلیسا کے یتیم خا نے میں اس کی پر ورش
ہو ئی۔ دس برس کی عمر میں لبنا ن سے امریکہ ایک لا ولد جو ڑے نے پہنچادیا۔ اس کی ماں
کو ن تھی؟ کہا ں گئی؟ وہ نہیں جا نتا تھا۔ یو ں ہی بھٹکتے ہو ئے وہ لا شعو ری طو ر
پر مشرق و سطٰی کے سلگتے ہو ئے خطے میں بار بار آ جا تا تھا، شا ید ما ں کی تلا ش میں!پچا
س سال کی عمر میں بھی ماں کے لمس کو ڈھو نڈتا!!
اسے سالم
کی آ وا ز نے چو نکا دیاجو ما ں کو جھنجھو ڑ رہا تھا۔ تذبذب کے عا لم میں جنرل نے سوا
ل کی ”......تم سارہ کی بہن یا .....بیٹی ہو؟؟....“ سلمٰی کے چہرے کے تا ثرا ت بدلتے
دیکھ کر جنرل کو اس کے شنا سا چہرہ کا سبب معلوم ہو گیا
”....میری خا لہ تھی.....تم وا قف ہو؟“
سوالیہ نظریں سلمٰی نے اٹھا ئیں
”..تھی؟ ...تو کیا؟؟........“ جنرل کا جملہ ادھو را رہ گیا
”ہا
ں وہ آ زا دی کی خا طر جا ن ہا ر گئی.....“ وہ عجیب سے انداز سے مسکرا ئی
”مگر
کب؟ کیسے؟ “ جنرل کا اضطراب چھلک اٹھا
”....کیا مطلب؟؟؟ تم سمجھتے ہو کہ ہم کیمپو ں میں پکنک منا رہے ہیں؟؟ یہاں نہتے
مرد، عورتیں اور بچے بھی اسرا ئیلی جا ر حیت
کے آ گے سینہ سپر ہیں۔ ار ض فلسطین تو سا ٹھ سال سے حا لت جنگ میں ہے .......“ ملا
متی لہجہ جنرل کا منہ چڑا نے لگا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
”....وہ ایک گو ریلا لڑا کا تھی! دشمن کو مطلوب! پھر ایک محا صرہ ہوا۔ سا مان
خورد و نو ش بند، دوا ئیں طبی سہو لیا ت منقطع، اندھا دھند بمباری! وہ اور اس جیسے
لا تعداد جان ہا ر گئے.....کب تک لڑ تی؟ اس کی آ واز بتد ریج مدھم ہو تی چلی گئی اور
چا رو ں طرف ایک بے نام با ز گشت گو نج اٹھی۔۔۔۔۔”...کب تک لڑ تی؟ ......کب تک لڑ تی؟
کب تک؟...“
”
....سعاد؟ ....“ خالی الذھن جنرل نے کر سی تھا م لی
”.....سارہ اور سعاد آ سما نو ں پر بھی ساتھ ساتھ آ زا دیء وطن کی منتظر ہیں
.....“
جنرل
کو اپنے کیریر کی شرو عا ت یا دآ ئیں۔ جنگ زدہ خطو ں میں فریقین کے مابین صلح بندی
کر وا نا اور پھر عا رضی جنگ بندی کو بر قرار رکھنا، اقوام متحدہ کے بنیا دی مقا صد!!
...... کس قدر متا ئثرکن تھے!۔ عرب شیو خ کی با ہمی چپقلش نے ار ض مقد س کو مسئلہ میں
تبدیل کر دیا۔ پھر امن فوج میں شمو لیت نے اسے لبنان پہنچا دیا۔ مسلمان، عیسا ئی اور
دروز میں تقسیم! گو نا ئٹ کلب کی زندگی تو روا ں دوا ں تھی بلکہ پہلے سے بھی افزو ں
تر مگر زیتو ن کے با غو ں میں ادا سی اتر آ ئی تھی۔ ستم رسیدہ فلسطینیو ں کے امڈ تے
قا فلے سرا پا سوا ل تھے اپنے عیاش حکمرا نو ں سے!
اس کی
اولین پو سٹنگ بیروت کے گرد و نوا ح میں ہو ئی۔ اسے تو اپنی ماں کی کشش وہا ں لے گئی
تھی۔ فا رغ اوقا ت میں ہر عورت کے چہرے کو ٹٹولتا، اس کے نقوش اپنے خد و خال سے ملا
تا! یہیں پر سا رہ اور سعاد دونو ں بہنو ں سے سا منا ہوا۔ تحریک آ زا دی ء فلسطین کی
سر فرو ش! سعاد تو مارے نفرت کے اس سے بات تک کر نا پسند نہ کر تی مگر سارہ جس کی آ
نکھو ں میں شرارے نا چتے تھے بری طرح الجھتی۔ اپنی شادی کی رات بیوہ ہو جانے وا لی
عورت...اسے حیرت ہو تی کہ غم میں ڈوب جا نے کے بجا ئے اپنے وطن کی با زیا بی کا نعرہ
لگا تی تھی۔ اس نے سو چا ایسی ہی کوئی عورت ماں کی یا د بھلا سکتی ہے ...مگر یہ بات
کہنے میں دونو ں کے درمیان مذا ہب کے علا وہ بھی بہت کچھ مانع تھا زندگی کے تضا دات
نے اسے ضرور لا دین بنا دیا مگر سارہ تو مو منہ ہی تھی۔
اور
پھر صا برہ اور شتیلہ کے کیمپ 1982 .....بمباری سے لرزہ خیز قتل عا م کی یا د نے اسے
آج بر سو ں بعد بھی رلا دیا۔ظلم بڑ ھتا ہے تو مٹ جا تا ہے مگر بیت المقدس کے تا خت
و تا راج سے جبری بے دخلی تک اور قبضہ سے غزہ،
رفا ہ کے محا صرے تک، 1948 سے 2010تک ظلم مسلسل بڑ ھتا گیا۔ اقوا م متحدہ، امن فوج،
بین الاقوا می ثا لثین، امن معا ہدے، آ زاد ذرا ئع ابلا غ در پر دہ ظلم و منا فقت کے
سا جھے دا ر تھے۔ نقشہء امن کی صورت گری محض
خواب و خیال ہے!
” تم
جو چاہو .....تو تمہاری رہا ئش کا بندوبست ......پیرس یا یو رپ کے کسی شہر میں ہو سکتا
ہے .......“ جنرل نے رک رک کر بد قت تمام اپنی
بات مکمل کی۔ سلمٰی نے نگا ہیں اٹھا کر جن نظرو ں سے اسے دیکھا جواب کا بخو بی اندا
زہ ہو گیا! اس کا لہجہ خنجر اور الفا ظ گو یا تلوار تھے ”.....یورپ جہا ں بوسنیا ہے؟؟،
وہی یو رپ جس نے نا م کی مسلمان آ با دی کو خاک و خون میں رنگ کر نسلی تطہیر کے فلسفے
کو عملا ثا بت کر دیا ہے.....“
” بوسنیا!
...“ جنرل چو نک گیا ”....تو کیا وہ جا نتی
ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج نے بوسنیا میں کیا کیا؟؟اس کا منہ کھل گیا ” ہم
بیروت، اردن، عمان، عقبہ میں تین چار نسلو ں سے پناہ گزین ہیں! ہم صحرا کی ما ئیں ہیں!
ہم مجا ہدو ں، شہیدو ں کو جنم دیتے رہیں
گے۔ ریت کے ذرو ں کی ما نند ہماری مامتا سے تمہا ری آ نکھیں خیرہ ہو جا ئیں
گی ...“ سلمی کا قہقہہ گو نجا اور پھر ہو
نٹ بھنچ گئے۔ سا لم حیرت زدہ سا ماں کو دیکھے گیا۔ دو نو ں جا نے کس لمحے گئے کہ اس
کو احسا س بھی نہ ہوا یا پھر وہ کہیں دور پہنچ گیا تھا۔ 1992کا مو سم بہار! بو سنیا، مر غزا رو ں کا مسکن، حسین نظا رو ں کا
وطن، فطرت سے مز ین! کیمپ ہی کیمپ! دور
تک خیمے ہی خیمے! پنا ہ گزین آ بادی کے لیے! ہر جگہ یہی ایک منظر تھا اور پس منظر بھی
یکسا ں تھا۔ مسلما ن آ با دی کا غیر مسلمو ں سے تنا زعہ! اپنے ہی وطن میں کیمپو ں میں
رہنے پر مجبور! ہر وقت جنو نی سر بو ں کے حملو ں کی زد میں رہتے۔کمیو نزم کی بسا ط
لپٹنے کی سزا افغا نستا ن سے لے کر یو گو سلا
ویہ سا بق تک مسلما نو ں کے حصے میں آ ئی۔ ایک معمو لی سے زمین کے ٹکڑے پر بھی دعوٰ
ی قبول نہ تھا! حکام بالا کی ھدایات کے عین مطابق سربوں کے حملہ ٓاور قافلوں کی نقل
وحرکت پر صرف نظر رکھنا تھی جنونیوں کو روکنا یا ان کی خبر دینا ممنوع تھا۔ کیسا سیدھا
سادا قتل عام تھاامن کا!انسانیت کا! تو پھر امن فوج نے بوسنیا میں کیا کیا؟؟ محض سربوں
کو حفاظتی حصار فراھم کیا۔اور وہ بھی تو اس جرم میں شریک تھا جبھی تو بوسنیا کے نام پر وہ بری طرح چونکا۔
ہیرس جو بغیر کسی سفا رش کے لڑھکتاہو اکرنل کے عہدے تک جاپہنچا تھا،یوگو سلا
ویہ میں چھڑی جنگ بلقان میں امدا دی کا رروا ئیو ں میں حصہ لیتے ہوئے ایک شام پہا ڑی
سے جو لڑ ھکا تو ایک ضعیف عو رت کے قد مو ں میں جارکا۔...را ئفل سے سیدھے اس کے دل
کا نشا نہ لیے ہو ئے! بین الاقوامی ادارہ کی جا نبداری نے مظلوم لو گو ں کے دلو ں میں
آتش بپا کر رکھی تھی۔ سو اقوام متحدہ کو کافی جا نی نقصان اٹھا ناپڑا تھا۔ اسے بھی
اپنا انجا م صاف نظر آ رہا تھا کہ اس نے کچھ مانگا بھی نہیں کتنی دیر تک وہ بے حس و
حر کت پڑا رہا۔ مگر پیچھے سے آ تی آ واز نے اسے چو نکا دیا۔ضعیفہ نے بڑھ کر آوا ز دی
” نر مین!..“ اپنے
نام کی طرح نرم و نا زک،ملیح چہرہ جس پر سے نظر ہٹا نادل کے بس میں نہیں معلوم ہو تا
تھا،مگر گہری اداسی نے جس پر ڈیرے ڈا لے ہو ئے تھے۔۔ وہ واقعی گلاب تھی! اس سے زیا
دہ کچھ کہنا حد ادب سے تجا وز تھا۔ قریب پہنچ کر نرمیں کا اداس چہرہ اس کی وردی اور
رینک دیکھ کر متغیر ہو گیا۔ اپنی گود سے ننھا بچہ ضعیفہ کوپکڑا دیا۔
”
نانی! ایک کو مار کر کیا ہو گا؟ پوری بٹا لین، پوری رجمنٹ... “ وہ دونوں ہاتھوں سے
چہرہ ڈھانپ کر بلک پڑی۔
” مگر اسے بتا دو کہ
اس بچے کا نام صلاح الدین ہے جو پورے یورپ کے عیسائیوں اور اس کے سرب باپ کے لئے ایک
ڈراؤنا خواب ہے۔جس نے مجھے نینی سے نرمین ہاشمی بنادیا.......“ اور غم و غصے سے چور سلیمہ نا نی نے وہ تلخ حقیقت
کیا بیان کی گو یا اس پر فرد جرم عا ئد کر دی ۔ ارد گرد ماحول کی خوبصورتی، فطرت کا
حسن جہنم زار میں بدل گیا۔
”...زما نو ں سے ساتھ رہتے ہم تو محض نام کے مسلما ن تھے اور اس کی شا دی تو یقینا
کسی سرب سے ہی ہو تی مگر مسلمان عورتو ں کو علیحدہ کر کے جبرابے عزتی کی منصوبہ بندی
کر نا اور اس فوج کا مکروہ کر دار! جنو نی سر بیو ں کو تحفظ دینا .......“
”...تم نے ہمیں برف کی مائیں بنا دیا ...یخ بستہ، ٹھٹھرا دینے وا لی! ہمارے
جذ بات، خوا ہشات منجمد ہو گئے ...“ نر مین کا لہو جمادینے والا لہجہ موسم بہار کی
خنک ہوا میں اس کو کپکپا گیا۔ وہ صاف شفاف آ نکھو ں میں اپنے لیے نفرت اور انتقام بخو
بی دیکھ سکتا تھا۔ اس کے سینے میں درد کی لہر اٹھی اس نے بھی تو سرب درندو ں کو تحفظ
اور مدد فرا ہم کی تھی ......سو ایک ظالم اور مظلوم کے درمیان نفرت اور انتقام کے سوا
کیا رشتہ ہو سکتا ہے.ظلم
کی معاونت میں شرکت کے احساس نے اسے زندہ درگور کر رکھا تھا۔ اندر ہی اندر ایک عدا
لت ہر لحظہ قا ئم ہو تی!! ایک غا صب اور محروم
کے بیچ بجز دشمنی کچھ بھی مشترک نہیں!! اس
کا سانس پھول گیا مگر نر مین اپنے صلاح الدین کو سینے سے لگا ئے پا مر دی سے آ نکھیں
بند کیے کھڑی تھی۔ اس نے چا ہا کہ نرمین اس کا گریبا ن پکڑ لے،اپنے دل کی بھڑا س نکا
لے، چیخے چلائے اور اپنے اوپر ہو نے والے ظلم کی دہا ئی دے، بلکہ اسے جان سے مار دے
مگر اس نے اپنے تمام جذ با ت اپنے بچے میں منتقل کر دیے تھے۔ صلاح الدین کا نا م ہی
تمہیں سہما دے گا!!!
جب
وہ پیرس وا پس لوٹا تو بے حد بکھرا ہوا تھا ۔خاموش! خود کو پھر سے کتا بو ں میں گم
کر لیا مگر اس کے اندر جنگ کے شعلے بھڑکتے رہتے۔ نفسیات کے علوم میں ڈ گری کے بعد ہیو
من ریسورس ڈیپا رٹمنٹ میں تبا دلہ بآسا نی ہو گیا۔ اس ادارے کا بظا ہرمقصدجنگ کے اثرات یعنی انسا نی المیو ں سے
جنم لیتے نفسیاتی مسا ئل کا جا ئزہ لینا، رپو رٹ بنا نا، نفسیا تی مریضو ں کے تنا سب
سے معا لجین اور سہو لیات کا تعین کر نا،انسا
نی ہمدر دی کی بنیا دو ں پر خیمہ بستیا ں قا ئم کر نا، جسم و جان کا رشتہ بر قرا ر
رکھنے کے لیے کھا نے، ادویات، سہو لیا ت کی فرا ہمی و غیرہ تھی مگردر پر دہ مسئلہ جوں
کا توں رہنے دینا، جا رح اور غا صب قو م کا پلہ بھا ری رہنے دینا۔یو ں انصاف کی دھجیا
ں بکھیر تا عا لمی ادارہ اپنے قیام کا جوا ز ثا بت کر تا۔ اسے تو اپنی پیدا ئش کا جواز
ہی سمجھ میں نہیں آ تا تھا۔ امن فوج کی کار کر دگی کیو ں کر سمجھ میں آ تی؟؟؟ مقبو ضہ فلسطین میں اسرائیلی سر حدو ں کے ساتھ ساتھ
بے پناہ شکا یات ملنے پر بین الاقوامی دبا ؤ کاسا منا تھا۔ چنا نچہ کر نل ہیرس کو بطور
نمائندہ جا ئزہ لینے جا ناپڑا۔فلسطینی آ بادی
میں اضافہ، ناگفتہ بہ سہو لیات کی وجہ سے بدلتے ہوئے سماجی رویے کی نشا ن دہی،
بڑ ھتے ہو ئے نفسیا تی امرا
ض نے اسے تشویش میں مبتلا کر دیا۔ وا پسی کا سفر سوچو ں میں کٹا۔
” ظلم
کے خلاف آ واز، جبر کے آ گے سینہ سپر! یہ تحریک مزا حمت ہم ما ؤں کے دم سے ہے!! اپنے
جوان اور نو عمر بچو ں کو اسرائیلی ٹینکو ں کے سا منے کھڑا کر نا آ سان نہیں ہے۔ بلکہ
اس سے بڑ ھ کر اسرا ئیلی جیلو ں میں نا قا بل بیا ن تشدد، تعذیب کا شکار مائیں، عور
تیں مزا حمت کی تا ریخ اپنے خون، عز ت،جان سے رقم کر رہی ہیں اس کا تصور بھی محال ہے
اور تمہاری رسا ئی بھی وہاں تک نہیں ممکن........‘‘سلمٰی کی آ واز آ سما نو ں سے گونج
رہی تھی کہ ال ایل کی ائر ہو سٹس نے گرم کا فی کی پیالی سامنے رکھدی۔
” سا ری ماؤ ں نے اس
کو ملزمو ں کے کٹہرے میں لا کھڑا کر دیا؟؟؟وہ تو ان پر ظلم کا ذمہ دار نہیں!!.......“
”....مگر ظلم کی پرد ہ پو شی،حمایت بھی ظلم کا حصہ ہے......“ اس کے دل میں کسی نے سر
گو شی کی
”.....جس نے مجھے نینی سے نر مین ہاشمی بنادیا .....“ اداس لہجہ رو ح میں اتر گیا۔ وہ اپنے اندر
بر سو ں سے جا ری بحث سے تنگ آ گیا تھا۔ اس کانا م تو کبھی بھی جنگی جرا ئم میں ملو
ث افراد کی فہرست میں نہیں شا مل رہا مگر وہ ایک نادیدہ سزا کاٹ رہا تھا۔ اسے اپنے
صدر دفتر آ ئے ہو ئے دو ہفتے ہو چکے تھے۔
اس کے ذہن میں بار بار وقتا فوقتا یہ مائیں
نمو دار ہو تیں دائرہ کی صو رت میں ”ہم صحرا کی ما ئیں ہیں .........ہم برف زا رو ں
کی مائیں ہیں ......“ گنگناتی، سیا ہ ماتمی
لب اس میں اپنے پا ؤ ں زمین پر ہلکے سے ما رتی! اس نے
خود کو بہلا نے کے کتنے جتن کیے مگر بے سود!! اسی کو شش میں اس نے شا م ہسپتال کے پا
رک میں گزا ری۔ ننھے ننھے بچے اپنی بیما رما ؤ ں کے گرد کھیلتے کھیلتے دور نکل جا تے
پھر آ کر ماؤ ں کے اطراف چکر لگا تے، ماؤ ں کا پیار لیتے۔
اگلی
صبح وہ ڈاک دیکھ رہا تھا کہ وا دی کشمیر سے آ ئے ایک خط نے اس کے اندر سلگتی ہو ئی
چنگا ری کو ہوا دے دی۔ سری نگر کے نوا ح سے زیتو ن بیگم اپنے ذہنی معذور بیٹے کی بھا
رتی افواج کے ہا تھو ں اغوا اور پھر شہا دت
کی تحقیقات کے لیے در خواست دی تھی ۔1948 سے وادی کشمیر حا لت جنگ میں ہے!! ”کہسا رو ں کی مائیں ...“ ”اف!! ..“ اس کا سر بری طرح دکھنے لگا۔اس کی معا
ون کشمیری نژاد ڈ اکٹر شیری اور ڈا کٹر زینت نے اس کے آ گے انسانی حقوق کی پا ئمالی
کی رپو رٹ رکھ دی۔ ”دنیا کے کونے کونے میں موجود ما ؤ ں کو ذلیل و رسوا
کر کے کس قسم کا امن متو قع ہے؟؟...“
پھر اس نے
قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے سبھی ساتھیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔کانفرنس ہال
میں دنیا بھر سے پریس نمائندے جمع تھے۔
مشہور خبر رساں ایجنسی کا رپورٹرنے سوال کیا گویا اسے چھیڑا،،اب آپ کیریر کے
اختتام پر زندگی کا آغاز کریں گے،، پورا ہال قہقوں سے گونج اٹھا۔ باون سال کی عمر کیا
ہے!عیش عشرت کی کیا کمی ہے آ پ کے لیے!!لیکن
وہ تو کسی اور ہی دھن میں تھا؟؟خود کلا می سے انداز میں بول پڑا،
” میرا
تمام کیریران ماؤ ں پر قر بان!!!“ بو ڑ ھا
جنرل دھا ڑیں مار مار کر رو نے لگا۔
”....اے عزم و ہمت کے پیکرو ں! صبر و استقا مت کی تصویرو ں!اے حیا دار تہذیب
کے گہوا رو ں! اے امت مسلمہ کی ماؤ ں! تمہیں سلام!!
فلسطین سے
کشمیر تک، بوسنیا سے عراق افغا نستان تک مسلمان ماں بری طرح لہو لہان ہے مگر اپنی مامتا،
وقار کو قو می، ملی سلامتی پر غالب نہیں آ نے دیتی! جذ بو ں کو سرد نہیں ہو نے دیتی!
بے دریغ قر با نیا ں دیے چلی جا رہی ہے اپنے بیٹو ں، بھا ئیو ں اور عصمتو ں کی .....!!!“
”آج
یو م مادر مہر بان پورے کرہ ارض پر تزک و احتشام سے منا یا جا رہا ہے مگر مجھے مغرب
کے نما یاں تر ین فرد کو اپنی ماں کا علم نہیں! ہم نے اپنے سماج سے ماں کو ختم کر دیا۔
ایک جھولے سے اٹھا یا گیا بچہ جسے ایک لا ولد جوڑے نے گود لے لیا.... "
اگلی صبح
کے اخبارات میں ایک کالمی خبر تھی ” اقوا م متحدہ کے human
resource department کے جنرل ہیرس اپنی ریٹا ئر
منٹ کے مو قع پر ذہنی توازن کھو
بیٹھے۔ نیو یا رک کے نفسیاتی ہسپتال منتقل۔ جہاں ان کا علاج دو پا کستانی نژاد ڈاکٹرز
کر رہی ہیں ...“
نگہت یاسمین