پیر، 20 فروری، 2017

پہلا جمعہ -------

                                                                                پہلا جمعہ    
                           
   آج بھی اچھی طرح یاد ہے وہ جمعہ کا دن تھا، عید کے بعد  پہلا جمعہ،اس دن کا انتظار تھا بچے بارہ بجے سکول سے آئے۔کئی پہر سوچ بچار کرتے گذرےتھے،دماغ سو طرح کے اندیشے پیش کرتا تو دل تاویلیں۔اکیلے بھیجوں یا کسی کے ساتھ یا پھر رہنے دوں.........

آخر بچے گلی میں کھیلتے بھی ہیں ،سکول بھی جاتے ہیں اور دکانوں پر بھی کھڑے نظر آتے ہیں  پھر وہاں نہ بھیجنے کا جواز ؟ دل اسے گھر بٹھانے پر مطمئن نہ تھا۔ہم سب نے کئی بار ممکنات پر غور کیا۔
ہوتا یہ ہے کہ اگر والدین کسی معاملہ پر پس وپیش کرتے ہیں تو بچے بھی اس پر شور کرتے ہیں اورجس بات پر ماں باپ یکسو ہوں تو بچے بھی آرام سے چوں چرا کئے بغیر سر انجام دیتے تھے ہیں۔
جونہی یوسف گھر میں داخل ہوا۔تیزی سے غسل خانے کا رخ کیا۔خاصا پر اعتماد نظر آرہا تھا اکیلے جانے کے خیال سے،ملی جلی کیفیت اس کے چہرے پر تحریر تھی۔نہا کر کرتا شلوار پہنا۔ابھی پچھلے مہینہ تو سات سال کا ہوا۔رمضان بھر تو اپنے ابو کے ساتھ جاتا رہا مگر اب تنہا جاناتھا۔ ابو آفس میں تھے۔ اسے کیا پتہ کہ ایک وقت ایسا بھی گذرا کہ جب جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی ہوتی تھی۔
اگر جمعہ قومی تعطیل ہوتا تو کوئی مسئله ہی نہ ہوتا۔یہ خواہش ایک الگ باب ہے غور وفکر کا پوری قوم کے لئے اور ہمارے گھر میں یوسف کے        مسجد میں جمعہ پڑھوانے پر دماغ لڑایا جارہاتھا۔
اپنی پڑوسن بہن اشرف جہاں سے گذارش کی کہ ان کے میاں جاتے ہوئے اسے ساتھ لےجائیں۔جنھوں نے بڑی خوشی سے ذمہ داری قبول کرلی۔ پہلی اذان ہوئی اور سب رخصت کرنے تیار ۔کچھ نصیحتیں دہرائیں۔یوسف کی بے چینی عروج پر بار بار دروازہ کھول کر دیکھے "انکل تو نہیں آرہے"(جو دوسری اذان پر آئے وجہ پانی کی کمی تھی(بالآخر وہ اکیلا ہی بھاگتا ہوا نکل گیا گلی کے آخری سرے تک۔موڑ کے بعد سیدھے جاکر مسجد کا گیٹ تھا۔آدھے گھنٹہ بعد,جب تک واپس نہ آگیا،عافیت طلب کرتے رہے۔پھر شام میں عصر کے وقت ایسی ہی مشق دہرائی گئی۔
     یہ ایک اوسط گھرانے کی روداد ہے۔ ماؤں کو سوچ دیتی کہ والد کے معاشی ذمہ داریاں نبھانے، خاموش کردار کے باعث انھیں بچوں خصوصاً لڑکوں کو کس طرح تیار کرنا ہے۔
مگر بات یہاں پر مکمل نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ دیر  سر جھکا کر خاموش رہی۔(اب تو مسجد جانے کی عادت ہوگئی ہوگی) کچھ دنوں بعد عصر پڑھ کر دوڑتا ہوا گیٹ پر آیا تو گلی میں کھیلتے سارے بچے اس کے گرد اکٹھاہوگئے۔ زین،فرحین،آمنہ۔عبدالحسب،فرحان،فاطمہ۔ قدموں کی آواز پر گیٹ کھولا تو سب کی نگاھوں کا مرکز یوسف تھا۔
   "تم نماز پڑھنے مسجد جاتے ہو ؟"
    "اکیلے؟"

باتونی فرحین کی صاف آواز  سنائی دی۔وہ آنکھوں آنکھوں میں اسے کھوج رہے تھے ۔اس نے مڑ کر پیچھے ماں کا چہرہ دیکھا اور اعتماد سے جواب دیا "ہاں تو کیا ہے؟"
اگلے جمعہ زین کو اپنے ابو کے ساتھ جمعہ پڑھنے جاتے دیکھ کر رب سے شدید تعلق محسوس ہوا۔ عمل کی تاثیر دیکھ کر اپنے جذبوں کی قبولیت کا یقین آگیا۔
اپنے ارد گرد سے ہم شکوہ کناں رہتے ہیں۔معاشرتی بگاڑ پر واویلا مچاتے ہیں۔ہمارے ماحول میں اچھی مثال قائم کرنے والےکم  اور تسلیم کرنے والے اور بھی کم نظر آتے ہیں۔مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ معاشرہ سو فیصد تبدیل نہ ہونے والے افراد پر مشتمل ہے۔ اصل بات ہماری کوششوں میں خلوص اور مستقل مزاجی کی ہے۔
یوسف جب بہت چھوٹا تھا جب ہی یہ نکتہ سمجھ آگیا کہ اب گھر سے باہر  بھی نئے معیار بنانے ہوں گے مسجد سے کهیل کے میدان تک۔۔۔۔ سات سال کی عمر سے مسجد میں نماز پڑھوانا اسی خیال کا تسلسل ہے۔
 ہمارے معاشرے میں معمول کی بات ہےکہ والدین اپنے بچوں کو ساتھ ساتھ رکھتے ہیں چاہے گھر ہو یا باہر۔یہی تربیت کا فطری نظام ہے۔جسے نظر انداز کرنے سے بچوں میں کجی اور معاشرے میں انتشار کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
                                                  ................................................
                                                                                            عفت ملک