جمعہ، 28 جنوری، 2022

مدینہ اور مہنگائی

مدینہ اور مہنگائی

گہری خاموشی میں مدھم ارتعاش تھا خشک زمین پر دور تک چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے ایک ننھی منّی مخلوق بل میں احتیاط سے داخل ہورہی تھی حشرات الارض کی زیرزمین دربار میں ہنگامی اجلاس جاری تھا سارے وزراء سر جھکائے بیٹھے تھے اتنے میں ملکہ چیونٹی سب کے درمیان سے گزرتی ہوئی اپنے تخت پر  جا بیٹھی۔

  میرے ساتھیوں!صورتحال یہ ہے کہ کالونی کے مختلف حصوں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے کتنی قیمتی کارکنان اور عوام بھوک کا شکار ہو گئے ۔خشک سالی نے تمام مخلوق کو تباہی سے دوچار کیا ہے سو  آج ہم سوچ بچار کے بعد  فیصلہ کرنے جمع ہوئے ہیں"

ایک بزرگ کارکن نے کھڑے ہو کر مودبانہ عرض کی" اے ملکہ حشرات الارض کچھ دن قبل ہمارے کھوجی سراغ رسانی کے لیے روانہ کیے گئے تھے ان کی جانب سے کوئی خیر خبر موصول ہوئی؟"

" گو کہ ہجرت آسان فیصلہ نہیں ہم سب ان کے انتظار میں ہیں۔"

"مگر ہماری نصف آبادی غذا کی تلاش میں جگہ جگہ بھٹکتی پھر رہی ہے " ایک جذباتی آواز ابھری اور سسکیاں بھی ۔

اچانک پانچ ممبران قطار بنا کر دربار میں داخل ہوئے ملکہ انہیں دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور آگے آنے کا اشارہ کیا۔

" وہ ساتھی جو دانوں(رزق) کی تلاش میں بھیجے گئے تھے واپس ہمارے درمیان آچکے ہیں "

چیونٹی عوام نے پرجوش نعروں سے ان کا استقبال کیا تخت پر پہنچ کر ملکہ کی دائیں طرف تین بائیں جانب دو معاونین بیٹھ گئے

"کوئی اچھی خبر!!" سینکڑوں ننھی آنکھیں ان پر لگی تھیں۔

"آسمان و زمین کے واحد رب کی بزرگی سلامت " بزرگ کھوجی نے حمد بیان کی ۔

"عزیز ساتھیوں!! ہماری آبادی کے چاروں طرف خشکی اور قحط ہے۔تمام جاندار یا تو فنا کے گھاٹ اتر گئے یا کہیں دور ہجرت۔"

دربار میں گہری خاموشی چھا گئی۔ملکہ نے دوسرے کھوجیوں کی طرف نگاہیں گھمائیں ۔ دو اور کھوجیوں نے نفی میں سر ہلائے ۔آخری سراغ رساں نے ایک دوسرے کے طرف دیکھا اور ملکہ سے اجازت چاہی ۔

"عظیم ملکہ اور باہمت ساتھیوں! ہم نہ تو خود جاسکے مگر دوسری آبادیوں کو ہجرت کرتے دیکھا ہے ان کے قافلے ایک مثالی ریاست نئے"خیابان" کی جناب رواں دواں دیکھا "بزرگ کھوجی نے لرزتی آواز میں کہا ۔

نسبتا جواں سراغ رساں جوش  سے بولا "ملکہ یہاں سے کچھ دور انسانی آبادی نے مدینہ جیسی ریاست بنانے کا دعوی کیا ہے ۔اور ہمارے اطراف کے سارے جانور دھیرے دھیرے وہاں جا رہے ہیں "ننھی حشرات الارض کا دربار بیک وقت عقیدت سے کھڑی ہو کر نعرہ زن ہوگیا "مدینہ مدینہ مدینہ" ملکہ کو ساتھیوں کو خاموش کرانے میں کچھ لمحے لگے۔

"یہاں روز عوام کو مرتے رکھتے سے بہتر ہے کہ امید لے کر سفر اختیار کریں" توقف کے بعد پرعزم فیصلہ کیا ۔

"سپہ سالار کوچ کی تیاری کریں۔ بیماروں، بزرگوں، بچوں کو درمیان میں جگہ دی جائے۔ راستہ بتانے والے جاسوس قطار میں سب سے آگے ہوں گے۔" ملکہ کی آواز دربار میں گونج رہی تھی۔

یوں مثل مدینہ ریاست کی سمت ایک قافلہ اور گامزن ہوا ۔

—————————

ادھر مثل مدینہ ریاست میں وزیران مشیران کی میٹنگ شروع ہوا چاہتی۔ شفاف شیشے کے دروازے دربان بار بار کھولتے اور صاحبان کو سلام جھاڑتے ۔

غیر ملکی سوٹ میں ملبوس اراکین کابینہ کی آمد  جاری تھی ۔وزیراعظم کی گاڑی نظر آتے ہی ایک نوجوان وزیر جوش سے چلایا " ہوشیار، خبردار چیف اگئے " اتنی زوردار آواز سے چھت کے کنارے چلتی چیونٹیوں کی قطار تھرا گئ اور بمشکل خود کو زمیں پر گرنے سے بچایا مگر جو دلیہ کے ذرے اٹھائے چل رہی تھیں ۔کیمرے میں داخل ہوئے عین وزیراعظم کے بالوں میں جا گرے۔اف! ساری محنت برباد ہو گئی اتنی چیخوں نے کمرے میں بھی کوئی ہلچل نہیں پبا کی۔ وزراء کی آوازیں بھن بھن کا شور پیدا کر رہی تھی۔

سیٹ پر بیٹھتے ہی لائق فائق وزیر خزانہ سے رپورٹ طلب کی ۔ساتھ ہی حکم صادر کیا "کہ ہر صورت میں بجٹ پاس ہونا چاہیے اگر نہ ہوا تو ہمیں بےعزتی اٹھانی ہوگی شاید کسی کے گھر جانا پڑے" دھمکی بھی جڑ دی ۔ گردشی قرضے ،سرمایہ، آئی ایم ایف ،نئے ٹیکس بالواسطہ مہنگائی کئی گھنٹوں تک بحث جاری رہی۔

"بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ کیسے کم کیا جائے ؟"نئےنئے وزیر کا جوش دیکھنے کے قابل تھا۔

جلدباز وزیر اطلاعات نے مائیک سنبھال لیا:"سر  اصل چیلنج مہنگائی کم کرنا نہیں کم ثابت کرنا  ہے۔"

" سر مہنگائی تو ایک مفروضہ ہےجوسائنسدان مکمل طور پر رد کر چکے ہیں۔" وزیر سائنس اپنا منہ کھولا۔

"سر اولا مہنگائی تو گذشتہ حکومت کی وجہ سے ہے غیر ملکی کمپنیوں کو چھوٹ دی گئی ہے ہے کہ وہ جہاں جہاں چاہے آزادانہ سرمایہ لگا کر قبضہ کرلے" ان کا منہ ہر گز بند نہ ہوتا اگر وزیراعظم کی نگاہ ان پر نہ جم جاتی۔

" سر بجٹ پاس کروانے کے تین نکات ہیں ہیں مہنگائی کا تاثر ختم ہوسکتا ہے۔"خوشامدی ڈاکٹر گویا ہوئے "ایک سرے سے  مکر جانا کہ مہنگائی ہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں سے موازنہ بالآخر ثابت کرنا" ۔

بڑ بڑ  وزیر داخلہ نے بات اچک لی۔ " گذشتہ حکومت پرملبہ گرا دینا اور اپنی سادگی کفایت شعاری کے قصے گھڑنا  سب سے اہم حزب مخالف کے ارکان کو خریدنے کی کوشش کرنا۔"

 ان کو چپ کرانا آسان نہیں تھا مگر قوانین کائنات  میں اچانک مونو سیکنڈ کے لئے ایک تبدیلی رونما ہوئی انسانی کانوں کی حد سماعت ختم کر دی گئ تو سسکیوں اور" رحم مالک مالک" کی باریک آوازوں نے ہائی پروفائل شخصیات کو آرام دہ نشستوں پر چونکا دیا سارے وزراء ایک دوسرے  کو گھورنے لگے۔

وزیراعظم نے مشکوک انداز میں میز کے نیچے جھانکا چمکتے فرش میں اپنی شبیہ نظر آئی آئی تو سر اونچا کرکے غرائے "کون ہے؟"

بند دروازوں کے باہر کھڑے دربان بھی الرٹ ہوگئے ۔

"سر شاید باہر سے آواز آئی ہے۔"

"سر اخبار والے بڑے فسادی ہیں ہر وقت حکومت کی بدحواسیاں نوٹ کرتے رہتے ہیں۔" مختلف آوازیں کمرے ابھریں۔

وزیر قانون نے فورا صفائی کا عملا طلب کرلیا جوں ہی انہیں چھت پر  قطار میں چیونٹیاں نظر آئیں۔

اتنے میں وزیر اعظم کے سیکرٹری نے اس دن کا باقی شیڈیول دوہرایا  جس کے مطابق سیلون کا وقت ہوا چاہتا تھا۔جس طرح ان کے بالوں میں گرے دلیے کے ذرے کوڑے کے ڈبے میں پہنچ گئے ادھر کابینہ کے کمرے میں حشرات الارض چرمر ہو کر مدینہ کی فضاؤں میں بکھر گئے۔

یوں دو ریاستوں کے پارلیمانی قصے بیان ہوئے مگر دونوں میں آغاز سے انجام تک انتہائی تضاد ہے ۔کسی بھی کردار و واقعات کی مماثلت محض فرضی اور اتفاقی ہے اور ناچیز کسی ناخوشگوار صورتحال سے بری الذمہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نگہت یاسمین