پیر، 27 فروری، 2023

Bazar

Bazar


کہنے کو بازار ایک لفظ جہاں  ہر شے دستیاب ہے ۔ضرورت کا چھوٹا بڑا سامان۔ یہ دنیا بھی ایک بازار ہے۔جہاں ہمارے جذبات،خواہشات کی تسکین منہ مانگے داموں خریدی اور بیچی جاتی ہے۔

گاہکوں کی بھیڑ ہے بازار جو سجا ہے۔ آئینوں کی دکان میں کچھ پسند ہی نہیں آرہا  تابندہ ایک کے بعد ایک شیشہ کو دیکھتی پھر سر ہلا کر آگے بڑھ جاتی 

 



نومی ،سیما،روبی،بابا ،دادی سب لوگ اس کے شوق اور جنون سے عاجز نظر آرہے تھے۔یہ دوسرا ہفتہ تھا اور ہر دوسرے روز ایک نئے بازار کا رخ ہوتا۔ آئینوں کی دکانیں ،شاپنگ مالز سے آرٹ گیلریوں تک ایک سے ایک بڑھیا اور دلکش آئینے دکھائے جاتے مگر وہ اسکی تعریف و توصیف میں ملائے گئے قلابے یہ کہ کر اڑادیتی کہ مجھے اصلی آئینہ چاهئے جو۔۔۔۔۔۔۔

کھڑکی سے آنے والے جھونکے نے ڈائری کا ورق جلدی جلدی پھڑپھڑا کر کہیں  سے کہیں اور کسی اور  واقعہ تک پہنچا دیا۔دیوار پر آئینہ کے بالمقابل  بند کھڑکی سے چھن کر آنے والی چاندنی میں   لہراتےدرختوں، سرسراتے پتوں کا عکس نمایاں تھا۔دور کہیں حمدیہ گانوں کی  دھن بجائی جارہی تھی ۔جنوری کا اداس تنہا چاند اپنا سفر مکمل کر رہا ہے ۔آئینہ کی جگہ ابھی تک خالی ہے۔پارٹی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔اور آئینہ کے بغیر ساری سجاوٹ بےکار لگے گی ۔مستطیل ہال کی لمبی دیوار پر یہاں سے وہاں تک آئینہ ہو اور پارٹی کاپورا  منظر ایک نظر میں دکھائی دے ،آنکھیں جھپکے بغیر اس نے تصور کیا ۔

کیسے  نادر مشورے ملے دیوار کی سجاوٹ پر۔سلمی آنٹی کی بات سن کر اس کا دل بھی للچایا، کلیسا کی دیواروں کی مانند شیکسپیئر کے ڈرامے کی منظر کشی!

دنیا کے عظیم مصوروں کے شاہکار ابھروا لیے جائیں تو ہال کی خوبصورتی کو چارچاند لگ جائیں۔عزی بھائی کی تجویز 

طلوع آفتاب کا منظر کتنا بھلا لگتا افقی دیوار پر یا عربی گھوڑوں کے نقش نئی زمینوں کو روندنے کی آرزو نگاہ مستانہ میں سجائے ۔ گھوڑے جو اسے بہت خواب ناک لگتے  مگر صرف دیکھنے میں، تصویروں میں، دستاویزی فلموں میں۔بیٹھنے اور دوڑانے میں لمبر گینی  یا                         بی ایم ڈبلیو

شاید دور جدید کا ہر انسان کشمکش میں ۔ماضی کے لمس میں جیون بتانے آرزو لیے مستقبل کی آڑی ٹیڑھی تصویروں کا سپنا سجائے آج لمحہ موجود میں کسی گرو یا ماسٹر سے "کامیابی"،"مقاصد" پر لیکچر !!افف      نیند سے بوجھل تابی نے میز پر سر ٹکادیا 

اوہ!اب مجھے سمجھ میں آگیا اپنی تابی کا نکتہ ۔    پاس سے ناز باجی کی آواز آئی ۔ " میری منفرد بچی  !!!                                          

 ہال میں      آئینہ سجانا چاہے جو ہر شخص کی شبیہہ میں حقیقی تاثرات منعکس کرے نہ کہ رسمی محبت ،نمائشی آداب

"یہ تو سراب ہے "یہ آئینہ تو مجھے وہ عکس دکھاتا ہے جو میں نے اپنے   ذہن  میں  بنایا ہوا ہے خوشنما، جاذب نظرِ ،  جرات مند 

مجھے تو ایسے آئینہ کی تلاش ہے جو میرا سچا عکس بنائے ۔میرا کھوٹ سارا میل ظاہر کردے۔ جیسی میں ہوں وہ دکھائے ۔اس کی آنکھوں میں عکس ہی عکس تھے اپنے ارد گرد شائیلاک جیسےسودخوروں کے ،بہادر سپہ کے کارناموں کے،ایمفی تھیٹر میں جھوٹ کا پہاڑ گھڑتے ابلاغی ماہرین کے اور خاموش مبلغین کے۔

سب نے اپنے ظرف کے مطابق ہی بازار  میں سودے لگائے اور منہ مانگے دام پائے ۔ دنیا ایک بازار ہی تو ہے ضرورت کا ہر سامان دست یاب ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نگہت یاسمین