جمعہ، 14 اگست، 2015

شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  چھ سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، دوہزار سے زیادہ دن بنتے ہیں ۔ ہرروز تو ملنا محال ہوتا ۔۔۔۔۔۔ مگربہتر مہینوں میں بہتر ملاقاتیں ہونے کا امکان توسیدھا سا حساب بنتا ہے ۔ اگراس کی تعلیم کے لئے دوردراز کینیڈا کا انتخاب نہ ہوتا ، جہاں خالہ اورماموں کی رہائش تھی ۔ انکے ہونے سےوالدین کی تسلی کاسامان موجود تھا۔کینیڈا جہاں برف گرتی ہے ، شاید جذبات و احساسات بھی منجمد ہوجاتےہونگے۔

 اس کی اچانک آمد کی خبر سن کریاد داشت کےسمندرمیں ہلچل مچ گئی ۔ کون آرہا ہے؟ کتنے سال بعد ؟ہمیں ان کی شکل یاد کیوں نہیں ؟ پرتجسس بچوں کے سوالات زیادہ گہرائی میں جا کربیتے لمحوں میں کھونےکا موقع ہی کہاں دیتے ؟ گھر سے گلستان جوہرکافاصلہ سوچوں میں گذرا ۔ وہاں بھی اس کی روانگی ،قیام اور واپسی پر بات چیت رہی ۔ اگلی صبح ناشتہ کے بعد ڈرائنگ روم کی صفائی کا مرحلہ سر کیا۔ معمولی سی ترتیب بدل ڈالی  گئی کہ زیادہ لوگ بیک وقت بیٹھ سکیں ۔ آخرانتظار کی گھڑیاں کٹ گئیں ۔ دروازہ پرگاڑی آکررکیِ اور بالکونی میں کھڑےبچے بھی سیڑھیوں سے پھلانگتے ہوئے آ گئے ۔ 

جب اسے دیکھا تو بادلوں کی اوٹ میں چھپےسورج کی روشنی مدھم لگی مگر کمرے کی روشنی یکا یک بڑھ گئی قد تو لمبا ہی تھا،تھوڑے سے دبلے،سنجیدہ محسوس ہوئے ۔ لمبے سفر کے بعد تھکن کےآثار چہرے پر نمایاں تھے۔ اٹک اٹک کرانگلش زدہ لہجے میں گفتگو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب کی خیریت کے بعد مشترکہ موضوعات زیربحث آگئے۔ بی فائیو میں جنات کی آباد کاری کواس نے بہت مزے لے کر سنا ۔

اچانک کمرے میں دبیز خاموشی چھا گئی ۔ انکشاف یا اعتراف ؟؟بالکل عام سےلہجے  میں اس نے جو کہا-

 " نہیں ،میں نے تو امیگریشن کے لئے درخواست نہیں دی"

" بس وہاں رہنے کا سوچا ہی نہیں "

اس نے دونوں چاچا،چاچیوں اور پھوپھوکوحیران کردیا ۔ ہم سب بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا چھ سال میں اس نے کیا تجربات کشید کیے؟ ہم سب الگ الگ ایک ہی بات سوچ رہے تھے ۔ آہستہ آہستہ وہاں کی طرزِ معاشرت،موسم ،حالات تہہ در تہہ گفتگو میں کھلتے چلے گئے ،مگر کونسی بات نئی تھی؟ ( جانے کا فیصلہ بھی ضد کر کے منوایا تھا ) کینیڈا کے قوانین امتیازی تھے،موسم ناموافق تھا،حالات و واقعات ہی ایسے پیش آئے ۔سب کچھ تو پتہ تھا- شاندارنمبروں کے ساتھ بی ایس کی ڈگری لینے والے "سیکیورٹی کلیر" پاکستانی نوجوان کا دل وہاں نہ لگا جہاں کی تہذیب نگاہوں کو بری طرح سے خیرہ کررہی ہے ۔ شاید نہیں بلکہ یقیناََ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ اس سے پہلے بھائی اور ابا جان بھی تو یورپ کی رنگینیاں ،مراعات چھوڑ کر واپس آ گئے تھے ۔ جس کو اس وقت لوگوں نے بے وقوفی قرار دیا تھا۔

   جن لوگوں کو وطن میں عزت اورآسودگی میسر ہو وہ ملک سے باہر جا کرذہنی،معاشرتی موازنہ کے بعد وہاں نہ بسنے کا  درست فیصلہ کرتے ہیں ۔وطن کے  بیرونِ ملک مقیم سارے نوجوان اگرایسے جراتمندانہ قدم اٹھائیں تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے۔ اللہ اسے اس فیصلہ پرثابت قدم رکھے آمین 

                                                                         عفت ملک

2 تبصرے:

  1. بے حد جذباتی اور امید افزا!

    جواب دیںحذف کریں
  2. مجھے لگتا ہے جذبات گرم ہوں تو برف پگھل جاتی ہے چاہے کینیڈا ہی کیوں نہ ہو... تحریر مزیدار ہے

    جواب دیںحذف کریں